Allama iqbal poetry | Allama iqbal famous poetry | Allama iqbal poetry in urdu for youth | Allama iqbal shayari

 Allama Iqbal Urdu Shayari - Allama Iqbal 

if you are looking for Allama Iqbal Shayari then you are in the right palace here you will find Shayari of Allah Iqbal Allama Iqbal Urdu Best Shayari Collection of Iqbal Urdu Poetry in a better way. Dr. Muhammad Allama Iqbal was the Top Class poet. Former Great Muslim Philosopher who wrote best Urdu Shayari and quotes on students on Islam and for youth.

Allama Iqbal is the National poet of Pakistan. He is one of the best poets in the history of the sub-continent. His poetry has a supernatural effect on the heart. His poetry has a really special message for humanity. Iqbal's poetry goes down deep in the soul. 

Shayari is a word that is poured with our emotions to make it magical and amazing. Shayari is a way to express our emotions and feelings in such a way that it reaches the heart of the people.

Allama iqbal poetry | Allama iqbal famous poetry | Allama iqbal poetry in urdu for youth | Allama iqbal shayari
Allama iqbal poetry | Allama iqbal famous poetry | Allama iqbal poetry in urdu for youth | Allama iqbal shayari


 سعدی

نہ مجھ سے پوچھ کہ عمر گریز پا کیا ہے

کسے خبر کہ یہ نیرنگ و سیمیا کیا ہے

ہوا جو خاک سے پیدا، وہ خاک میں مستور

مگر یہ غیبت صغری ہے یا فنا، کیا ہے!

غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال

خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے

دل و نظر بھی اسی آب و گل کے ہیں اعجاز

نہیں تو حضرت انساں کی انتہا کیا ہے؟

جہاں کی روح رواں لا الہ الا ھو،

مسیح و میخ و چلیپا ، یہ ماجرا کیا ہے!

قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے

گناہ گار ہے کون، اور خوں بہا کیا ہے

غمیں مشو کہ بہ بند جہاں گرفتاریم

طلسم ہا شکند آں دلے کہ ما داریم

خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقام حیات

کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحان ثبات

خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا

ترے فراق میں مضطر ہے موج نیل و فرات

خودی ہے مردہ تو مانند کاہ پیش نسیم

خودی ہے زندہ تو سلطان جملہ موجودات

نگاہ ایک تجلی سے ہے اگر محروم

دو صد ہزار تجلی تلافی مافات

مقام بندئہ مومن کا ہے ورائے سپہر

زمیں سے تا بہ ثریا تمام لات و منات

حریم ذات ہے اس کا نشیمن ابدی

نہ تیرہ خاک لحد ہے، نہ جلوہ گاہ صفات

خود آگہاں کہ ازیں خاک داں بروں جستند

طلسم مہر و سپہر و ستارہ بشکستند

علامہ اقبال


مسعود مرحوم


یہ مہر و مہ، یہ ستارے یہ آسمان کبود

کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود

خیال جادہ و منزل فسانہ و افسوں

کہ زندگی ہے سراپا رحیل بے مقصود

رہی نہ آہ ، زمانے کے ہاتھ سے باقی

وہ یادگار کمالات احمد و محمود

زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اس کی

وہ کارواں کا متاع گراں بہا مسعود!

مجھے رلاتی ہے اہل جہاں کی بیدردی

فغان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود

نہ کہہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارئہ غم دوست

نہ کہہ کہ صبر معمائے موت کی ہے کشود

دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است

ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است

علامہ اقبال




دوزخی کی مناجات


اس دیر کہن میں ہیں غرض مند پجاری

رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد

پوجا بھی ہے بے سود، نمازیں بھی ہیں بے سود

قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد

ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس

ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانہء آباد

تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے

سیراب ہے پرویز، جگر تشنہ ہے فرہاد

یہ علم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت

جو کچھ ہے، وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد

اللہ! ترا شکر کہ یہ خطہ پر سوز

سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد!

علامہ اقبال




معزول شہنشاہ


ہو مبارک اس شہنشاہ نکو فرجام کو

جس کی قربانی سے اسرار ملوکیت ہیں فاش

شاہ ہے برطانوی مندر میں اک مٹی کا بت

جس کو کر سکتے ہیں، جب چاہیں پجاری پاش پاش

ہے یہ مشک آمیز افیوں ہم غلاموں کے لیے

ساحر انگلیس! مارا خواجہ دیگر تراش

علامہ اقبال



زمین


آہ یہ مرگ دوام، آہ یہ رزم حیات

ختم بھی ہوگی کبھی کشمکش کائنات!

عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات

عارف و عامی تمام بندئہ لات و منات

خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات

قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات

کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات؟

علامہ اقبال




عالم برزخ


مردہ اپنی قبر سے

کیا شے ہے، کس امروز کا فردا ہے قیامت

اے میرے شبستاں کہن! کیا ہے قیامت؟


قبر

اے مردۂِ صد سالہ! تجھے کیا نہیں معلوم؟

ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت!


مردہ

جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت

اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں

ہر چند کہ ہوں مردئہ صد سالہ ولیکن

ظلمت کدہ خاک سے بیزار نہیں میں

ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار

ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں


صدائے غیب

نے نصیب مار و کژدم، نے نصیب دام و دد

ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگ ابد

بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں

روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد

مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام

گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد


قبر اپنے مردہ سے

آہ ، ظالم! تو جہاں میں بندہ محکوم تھا

میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز


ناک

تیری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر

تیری میت سے زمیں کا پردئہ ناموس چاک

الحذر، محکوم کی میت سے سو بار الحذر

اے سرافیل! اے خدائے کائنات! اے جان پاک!


صدائے غیب

گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود

ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود

زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب

زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود

ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام

ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشود

علامہ اقبال




تصویر و مصور


تصویر

کہا تصویر نے تصویر گر سے

نمائش ہے مری تیرے ہنر سے

ولیکن کس قدر نا منصفی ہے

کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے!


مصور

گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر

جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر!

نظر ، درد و غم و سوز و تب و تاب

تو اے ناداں، قناعت کر خبر پر


تصویر

خبر، عقل و خرد کی ناتوانی

نظر، دل کی حیات جاودانی

نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز

سزاوار حدیث لن ترانی


مصور

تو ہے میرے کمالات ہنر سے

نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے

مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط

کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے

علامہ اقبال



ابلیس کی مجلس شوری

1936ء


ابلیس

یہ عناصر کا پرانا کھیل، یہ دنیائے دوں

ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں!

اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز

جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں

میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب

میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں

میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا

میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں

کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد

جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں

جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند

کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!


پہلا مشیر

اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام

پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام

ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود

ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام

آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں

ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام

یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج

صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام

طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی

ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام!

ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا

کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام

کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟

ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام!


دوسرا مشیر

خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر

تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر!


پہلا مشیر

ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے

جو ملوکیت کا اک پردہ ہو، کیا اس سے خطر!

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے

یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر

مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو

ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!


تیسرا مشیر

روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب

ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟

وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب

نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز

مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد

توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب!


چوتھا مشیر

توڑ اس کا رومہ الکبرے کے ایوانوں میں دیکھ

آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب

کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا

گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،


تیسرا مشیر

میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں

جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب


پانچواں مشیر

ابلیس کو مخاطب کرکے

اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!

تو نے جب چاہا، کیا ہر پردگی کو آشکار

آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز

ابلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کار

تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں

سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار

کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف

تیری غیرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار

گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام

اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار

وہ یہودی فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز

ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار

زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ

کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار

چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر

جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار

فتنہء فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج

کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار

میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے

جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار


ابلیس

اپنے مشیروں سے

ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو

کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمان تو بتو

دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق

میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو

کیا امامان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ

سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو

کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے

توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!

دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک

مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد

یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو

خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو

جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایام ہے

مزدکیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!


(2)

جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں

عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں

الحذر! آئین پیغمبر سے سو بار الحذر

حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں

موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے

نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف

منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب

یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں

ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے

یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے


(3)

توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات

ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات

ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے

ہیں صفات ذات حق، حق سے جدا یا عین ذات؟

آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے

یا مجدد، جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟

ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم

امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟

کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں

یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟

تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے

تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات

خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام

چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات

ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر

جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات

ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا

اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا

جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل

وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں

پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر

کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص

کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

دنیا کو ہے پھر معرکہء روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

تقدیر امم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے

شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!


علامہ اقبال



کل اپنے مریدوں سے کہا پیر مغاں نے


کل اپنے مریدوں سے کہا پیر مغاں نے

قیمت میں یہ معنی ہے درناب سے دہ چند

زہراب ہے اس قوم کے حق میں مےء افرنگ

جس قوم کے بچے نہیں خوددار و ہنرمند

علامہ اقبال


فطرت مری مانند نسیم سحری ہے


فطرت مری مانند نسیم سحری ہے

رفتار ہے میری کبھی آہستہ ، کبھی تیز

پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو

کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز

علامہ اقبال



چیونٹی اورعقاب


چیونٹی

میں پائمال و خوار و پریشان و دردمند

تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند؟


عقاب

تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاک راہ میں

میں نہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں!

علامہ اقبال




شیر اور خچر


شیر

ساکنان دشت و صحرا میں ہے تو سب سے الگ

کون ہیں تیرے اب و جد ، کس قبیلے سے ہے تو؟


خچر

میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور

وہ صبا رفتار ، شاہی اصطبل کی آبرو!

(ماخوذ ازجرمن)

علامہ اقبال




آزادی افکار

جو دونی فطرت سے نہیں لائق پرواز

اس مرغک بیچارہ کا انجام ہے افتاد

ہر سینہ نشیمن نہیں جبریل امیں کا

ہر فکر نہیں طائر فردوس کا صےاد

اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک

جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد

گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ

آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد

علامہ اقبال



یورپ

تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سودخوار

جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ

خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح

دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ!

(ماخوذاز نطشہ)

علامہ اقبال

Post a Comment

0 Comments