Gulzar Ghazal | Gulzar Shayari | Gulzar Poetry | Hindi Shayari | Shayari | Gulzar Ghazal | Gulzar Urdu Poetry

  Gulzar Shayari | Gulzar Poetry | Hindi Shayari 

If you are looking for Gulzar Shayari in Hindi and Urdu then you are in the right place here you will find Gulzar Poetry Shayari is a unique poetic way to express yourself and express your feelings deep in your heart. 




Gulzar Ghazal  | Gulzar Shayari | Gulzar Poetry | Hindi Shayari | Shayari | Gulzar Ghazal | Gulzar Urdu Poetry


بے سبب مسکرا رہا ہے چاند


بے سبب مسکرا رہا ہے چاند

کوئی سازش چھپا رہا ہے چاند


جانے کس کی گلی سے نکلا ہے

جھینپا جھینپا سا آ رہا ہے چاند


کتنا غازہ لگایا ہے منہ پر

دھُول ہی دھُول اُڑا رہا ہے چاند


سُوکھی جامن کے پیڑ کے رستے

چھت ہی چھت پر سے جا رہا ہے چاند


کیسا بیٹھا ہے چھُپ کے پتوں میں

باغباں کو ستا رہا ہے چاند


سیدھا سادا اُفق سے نکلا تھا

سر پہ اب چڑھتا جا رہا ہے چاند


چھو کے دیکھا تو گرم تھا ماتھا

دھُوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند

گلزار



وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا


وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا

ہواؤں کا رُخ دِکھا رہا تھا


بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا

جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا


کہیں مرا ہی خیال ہو گا

جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا


کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں

مَیں اپنا لکھا مٹا رہا تھا


وہ جسم جیسے چراغ کی لَو

مگر دھُواں دِل پہ چھا رہا تھا


منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی

پڑوسیوں کو جگا رہا تھا


اسی کا ایماں بدل گیا ہے

کبھی جو میرا خُدا رہا تھا


وہ ایک دن ایک اجنبی کو

مری کہانی سنا رہا تھا


وہ عمر کم کر رہا تھا میری

مَیں سال اپنا بڑھا رہا تھا


خدا کی شاید رضا ہو اس میں

تمہارا جو فیصلہ رہا تھا

گلزار



ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا


ذکر ہوتا ہے جہاں بھی مرے افسانے کا

صدر دروازہ سا کھلتا ہے کتب خانے کا


اب دھوئیں کی طرح تحلیل ہوا جاتا ہے

دِل سے اِک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا


جی کے بہلانے کو آ جاتے ہیں کچھ لوگ یہاں

کتنا آباد ہے گوشہ مرے ویرانے کا


بلبلہ پھر سے چلا پانی میں غوطے کھانے

نہ سمجھنے کا اُسے وقت نہ سمجھانے کا


مَیں نے الفاظ تو بیجوں کی طرح چھانٹ دیئے

ایسا میٹھا ترا انداز تھا فرمانے کا


کس کو روکے کوئی رستے میں کہاں بات کرے

نہ تو آنے کی خبر ہے ، نہ پتہ جانے کا

گلزار



اوس پڑی تھی رات بہت اور ہلکی تھی گرمائش پر


اوس پڑی تھی رات بہت اور ہلکی تھی گرمائش پر

سِیلی سی خاموش میں، وہ بولے تو فرمائش پر


فاصلے ہیں بھی اور نہیں، ناپا تولا کچھ بھی نہیں

لوگ بضد رہتے ہیں پھر بھی رشتوں کی پیمائش پر


منہ موڑا اور دیکھا کتنی دُور کھڑے تھے ہم دونوں

آپ لڑے تھے ہم سے بس اِک کروٹ کی گنجائش پر


کاغذ کا اِک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی میں

دِل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر


دِل کا حجرہ کتنی بار اُجڑا بھی اور بسایا بھی

ساری عمر کہاں ٹھہرا ہے کوئی ایک رہائش پر


دھُوپ اور چھاؤں بانٹ کے تم نے آنگن میں دیوار چنی

کیا اتنا آسان ہے زندہ رہنا اس آسائش پر

گلزار


خوشبو جیسے لوگ ملےافسانے میں


خوشبو جیسے لوگ ملےافسانے میں

ایک پرانا خط کھولا انجانے میں


شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں


رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے

دھُوپ اُنڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں


جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں

درد مزے لیتا ہے جو دوہرانے میں


دِل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے

کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں


ہم اس موڑ سے اُٹھ کر اگلے موڑ چلے

اُن کو شاید عمر لگے گی آنے میں

گلزار



کھلی کتاب کے صفحے اُلٹتے رہتے ہیں



کھلی کتاب کے صفحے اُلٹتے رہتے ہیں

ہوا چلے نہ چلے دن پلٹتے رہتے ہیں


بس ایک وحشتِ منزل ہے اور کچھ بھی نہیں

کہ چند سیڑھیاں چڑھتے اُترتے رہتے ہیں


مجھے تو روز کسوٹی پہ دَرد کستا ہے

کہ جاں سے جسم کے بخیے اُدھڑتے رہتے ہیں


کبھی رُکا نہیں کوئی مقام صحرا میں

کہ ٹیلے پاؤں تلے سے سرکتے رہتے ہیں


یہ روٹیاں ہیں، یہ سِکّے ہیں اور دائرے ہیں

یہ ایک دُوجے کو دن بھر پکڑتے رہتے ہیں


بھرے ہیں رات کے ریزے کچھ ایسے آنکھوں میں

اُجالا ہو تو ہم آنکھیں جھپکتے رہتے ہیں

گلزار




تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے اِدھر آتے ہوئے


تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے اِدھر آتے ہوئے

کچھ بھنور ڈوب گئے آب میں چکراتے ہوئے


ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے

چھینا جھپٹی میں اُفق کھلتا گیا جاتے ہوئے


جھپ سے پانی میں اُتر جاتی ہے گلنار شفق

سُرخ ہو جاتے ہیں رُخسار بھی، شرماتے ہوئے


میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری

شوخ پتے نے کہا شاخ سے مُرجھاتے ہوئے


حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح

ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے


سِی لئے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سُن کر

میلی ہو جاتی ہے آواز بھی، دُہراتے ہوئے

گلزار



ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا


ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا

میری تصویر جو گرتی تو چھناکا ہوتا


یوں بھی اِک بار تو ہوتا کہ سمندر بجتا

کوئی احساس تو دریا کی اَنا کا ہوتا


سانس موسم کی بھی کچھ دیر کو چلنے لگتی

کوئی جھونکا تری پلکوں کی ہَوا کا ہوتا


کانچ کے پار ترے ہاتھ نظر آتے ہیں

کاش خوشبو کی طرح رنگ حنا کا ہوتا


کیوں مری شکل پہن لیتا ہے چھپنے کیلئے

ایک چہرہ، کوئی اپنا تو خُدا کا ہوتا

گلزار



ہر ایک غم نچوڑ کے ہر ایک رس جیے

ہر ایک غم نچوڑ کے ہر ایک رس جیے

دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے


صدیوں پہ اختیار نہیں تھا ہمارا دوست

دو چار لمحے بس میں تھے ، دو چار بس جیے


صحرا کے اس طرف سے گئے سارے کارواں

سن سن کے ہم تو صرف صدائے رس جیئے


ہونٹوں میں لے کے رات کے آنچل کا اِک سرا

آنکھوں پہ رکھ کے چاند کے ہونٹوں کا مَس جیے


محدود ہیں دُعائیں مرے اختیار میں

اِک سانس پُر سکون ہو تو سو برس جیے

گلزار



کچھ روز سے وہ سنجیدہ ہے


کچھ روز سے وہ سنجیدہ ہے

ہم سے کچھ کچھ رنجیدہ ہے


چل دِل کی راہ سے ہو کے چلیں

دلچسپ ہے اور پیچیدہ ہے


بیدار نہیں ہے کوئی بھی

جو جاگتا ہے خوابیدہ ہے


ہم کس سے اپنی بات کریں

ہر شخص ترا گرویدہ ہے

گلزار




حواس کا جہان ساتھ لے گیا


حواس کا جہان ساتھ لے گیا

وہ سارے بادبان ساتھ لے گیا


بتائیں کیا، وہ آفتاب تھا کوئی

گیا تو آسمان ساتھ لے گیا


کتاب بند کی اور اُٹھ کے چل دیا

تمام داستان ساتھ لے گیا


وہ بے پناہ پیار کرتا تھا مجھے

گیا تو میری جان ساتھ لے گیا


میں سجدے سے اُٹھا تو کوئی بھی نہ تھا

وہ پاؤں کے نشان ساتھ لے گیا


سِرے اُدھڑ گئے ہیں صبح و شام کے

وہ میرے دو جہان ساتھ لے گیا

گلزار



دن کچھ ایسے گذارتا ہے کوئی


دن کچھ ایسے گذارتا ہے کوئی

جیسے احساں اتارتا ہے کوئی


آئینہ دیکھ کر تسلی ہوئی

ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی


دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم

جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی


پک گیا ہے شجر پہ پھل شاید

پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی


دیر سے گونجتے ہیں سناٹے

جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی

گلزار



عادتاً تم نے کر دیے وعدے


عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا


تیری راہوں میں بارہا رک کر

ہم نے اپنا ہی انتظار کیا


اب نہ مانگیں گے زندگی یا رب

یہ گنہ ہم نے ایک بار کیا

گلزار

Post a Comment

0 Comments