Best Bano qudsia urdu quotes | Bano Qudsia Quotes | Urdu Quotes

 Bano Qudsia Quotes - Bano Qudsia Urdu Quotes 


here you will find Quotes of Bano Qudsia. Everyone knows about Bano Qudsia but if you are not let me introduce to you about Bano Qudsia :

Bano Qudsia, also known as Bano Aapa, was a Pakistani novelist, playwright, and spiritualist. She wrote literature in Urdu, producing novels, dramas plays, and short stories. Qudsia is best recognized for her novel Raja Gidh. Qudsia also wrote for television and stage in both Urdu and Punjabi

Best Bano qudsia urdu quotes | Bano Qudsia Quotes | Urdu Quotes






کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سہارا بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور گیس میں بدل جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے، جو موسم، جو رُت، جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔
(راجہ گدھ سے اقتباس)بانو قدسیہ


——————–





بھلا زوال کیا ہوا تھا؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دو چار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے۔ وہ بھی جنت سے نکالے گئے۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ یہی تو ساری بات ہے۔ ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے، میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ نااُمید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغواء ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔
(سامان وجود سے اقتباس) بانو قد  قدسیہ



——————–





ہر شخص کی یہی مجبوری ہے کہ وہ ساری عمر ایک ہی سزا نہیں بھگت سکتا، یا ایک ہی خوشی کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتا۔ پھانسی کے تختے سے اتر کر بجلی کی کرسی پر بیٹھنا، بجلی کی کرسی سے اٹھ کر صلیب پر چڑھنا، تہہ آب ہونا اور نہ مرنا۔ پانی کی گہرائیوں سے نکل کر سرِ کوہسارے سے چھلانگ لگانا۔ ۔ ۔ ہم سب ایک کرب سے نکل کر دوسری تکلیف کے حوالے ہونا چاہتے ہیں، ایک خوشی سے منہ موڑ کر دوسری خوشی میں ڈوبنا چاہتے ہیں۔ یہ انسان کےلیے اتنا ہی نیچرل ہے جیسے وہ ایک ٹانگ پر ہمیشہ کے لیے کھڑا نہ رہ سکے۔ ۔ ۔
از: راجہ گدھ--- بانو قدسیہ


——————–



نوجوان پود کو یہ معلوم نہیں کہ اگر واقعی روح کی آزادی مطلوب ہو تو مذھب کی کشتی درکار ہوتی ہے -

یہ کشتی سفید ہو نیلی ہو پیلی ہو اس میں شک و گمان کے سوراخ نہیں ہونے چاہییں -

اگر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر کھلے آسمان سے رابطہ قائم کرنا ہے تو کسی ایک راستے کا انتخاب ضروری ہوگا -

جو لوگ بار بار پگڈنڈی ، کشتی یا مسلک بدلتے رہتے ہیں ان کی روح کی آزادی ممکن نہیں رہتی -

اگر آپ کو روح کی آزادی چاہئے اور آپ دنیاوی منفعت کے لئے جان کھپا دیں تو بھی مذہب آپ کو مایوس کرتا رہیگا -

آزادی انعام ہے ............ حق نہیں .................
آزادی منزل ہے ........... راستہ نہیں ..............

آزادی سکون ، طمانیت اور شکر کا مقام ہے ................متلاطم کیفیت کا نہیں ---------

از بانو قدسیہ راہ رواں ١٨٢


——————–




میں سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں چونکہ ہمارے اندر گندا اور صاف خون اکٹھا رواں دواں ہے اور دل کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ یہ دونوں لہو قلب میں مل نہیں پاتے -

سنا ہے ایسے ہی جنت میں دو دریا جاری ہیں ، جو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بہتے ہیں -

پر ان میں ایک قدرتی آڑ ہے -

گویا اس دوئی یا تضاد نے انسان کی ساری زندگی کو الجھاؤ کے حوالے کر دیا ہے -

وہ مکمل طور پر فرشتہ بن جائے یہ ممکن نہیں .......
.....

مجسم ابلیس بن کر اترائے ، اور تکبر کی صورت زندگی بسر کرے یہ بھی یقینی نہیں -

الله نے اسے آزاد چھوڑ رکھا ہے -

اگر ہدایت کا خواستگار ہوا تو بدی کا سفر نیکی میں منتقل ہو جائیگا .........

اور بدی کے سفر سے چھٹکارا حاصل نہ کرنا چاہے تو بھی فیصلہ صرف اس کا اپنا ہے -

غیبی طاقت اسے تبدیلی پر آمادہ تو کر سکتی ہے لیکن تھانیداری نہیں کر سکتی

از بانو قدسیہ راہ رواں

——————–



محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی عمل سے وابستہ نہیں ہوتا -

اچھائی برائی ، کمی بیشی ، اونچ نیچ محبّت کے سامنے یہ سب بیکار کی باتیں ہیں -

محبّت کرنے والا محبوب کی خوبیاں خرابیاں نہیں دیکھ پاتا ، بلکہ محبوب کی خرابیوں کو اپنی کج ادائیوں کی طرح قبول کر لیتا ہے -

ڈیروں پر اسی محبّت کا مظہر نظر آتا ہے اور غالباً اسی محبّت کی تلاش خلق کو بابوں کے پاس لے جاتی رہی -

مشکل یہ ہے کہ کچھ لوگ محبّت کے اہل
نہیں ہوتے -

انھیں اپنی ذہانت پر اس قدر مان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں میں کیڑے نکال کر ، کسی اور کا قد چھوٹا کر کے ، کسی دوسری کی خوبیوں میں خرابی کا پہلو نکل کر اپنی عظمت کی کلا جگاتے ہیں -

میں یہ نہیں کہ رہی کہ خان صاحب فرشتہ تھے -

ان میں انسان ہونے کے ناطے خوبی اور خرابی کے دریا ساتھ ساتھ بہتے ہونگے -

ان میں بھی حب جاہ کی طلب ہوگی -

لیکن ان کے چاہنے والوں کی توجہ کبھی ادھر نہیں گئی -

وہ کبھی ان کی بشریت کی طرف دھیان نہ دے پائے -

اور انھیں ایک بہت بڑا آدمی ، برگزیدہ صوفی ، اور انمول ادیب سمجھتے رہے -

لیکن سوسائٹی میں کچھ نکتہ چیں قسم کے لوگ رہتے ہیں جو محبتی طریقہ نہیں اپنا سکتے -

اور پکڑ پکڑ کر سینت سینت کے خان صاحب کی غلطیاں نکالنے کے درپے رہتے ہیں -

دونوں قسم کے لوگوں میں صرف رویے کا فرق ہے -

مہربان لوگوں کا رویہ ماں کی طرح ستر پوشی کا ہے اور عیب ڈھونڈھنے والے اپنے سچ پر اپنی ذہانت پر اعتماد کرتے ہیں -

از بانو قدسیہ راہ رواں

——————–



اشفاق احمد نے بڑے کرب کی زندگی گزاری ، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ کسی کی دل آزاری کو سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے -

ان پر یہ حقیقت نہ کھلی کہ دل شکنی زندگی کا ایک وصف ہے -

الله تعالیٰ کبھی کسی انسان کو دوسرے انسان پر آفت بنا کر نازل کر دیتا ہے ، اور کبھی رحمت بنا دیتا ہے یہ سب اس کے کھیل ہیں -

اس حقیقت کو طائف کے واقعے یا رحمت دو عالم پر کوڑا پھینکنی والی مائی کے حوالے سے سمجھنا چاہیے کہ
ہمارے نبی نے کبھی ان لوگوں کو مورد الزام نہ سمجھا -

بلکہ یہی جانا کہ بیچارے لوگ مشیت کے ہاتھ میں اس آشوب کا ہتھیار بنے ہوئے ہیں -

اس کو کیا کیا جائے کہ قدم قدم پر ، ہر لمحہ ہر موسم اور ہرمقام پر دل ٹوٹتے ہیں -

کبھی کسی غلط فہمی کے تحت کبھی خوش فہمی کے باعث دل شکنی ہو ہی جاتی ہے -

کبھی حسد حق تلفی کا باعث بنتا ہے اور کبھی طیش -

از بانو قدسیہ راہ رواں

——————–






اشفاق احمد صاحب سناتے تھے کے اک بار وہ اپنے بابا جی سے بحث میں الجھ گے کہتے تھے میں ان سے بہت سوال کرتا تھا . بابا جی بھی ان کو سمجھاتے تھے کے دنیا کی کوئی بھی چیز ساکت نہیں ، یہ سورج چاند ستارے سب اپنے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں اور اشفاق صاحب بضد تھے کے جدید علم کی روشنی میں سورج ساکت ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے ، بابا جی نے آخر کہا اشفاق میاں ! صرف مطلوب ساکت ہوتا ہے . سب طالب اس کے گرد گومتے ہیں ، اشفاق صاحب کہتے ہیں کے میں جدید دنیا کا رہنے والا پڑھا لکھا انسان تھا ، میں نے بابا جی کی یہ دلیل نہیں مانی جوہ انہوں نے قرآن اور تصوف کی روشنی میں دی تھی ، مگر طالب اور مطلوب کی نسبت کا یہ جملہ مجھے پسند آیا ،،

از آپا بانو قدسیہ
کتاب ; راہ رواں

——————–





یہ ساری دنیا مرد کی ہے یہاں عورت ڈھور ڈنگر کی طرح ہے - ذرا پھن اٹھایا تو پتھر مار کر کچل دی جائے گی -

ذرا خدمت گزاری سے کام نہ لیا ، اطاعت نہ کی ، نیک پروین بن کر نہ دکھایا تو تھڑی تھڑی ہو جائیگی -

اسی میں عافیت ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر اندھیاریاں پہنے اسی ڈگر پر چکر لگاتے وقت گزر جائے -

گاڑی والے کو علم نہ ہو کہ بیل اس گردش پیہم سے تھک گیا ہے - بیل کے اندر بھاگ جانے کا حوصلہ نہیں ............... اس میں کھلی فضاؤں میں اکیلے پھرنے کی سکت نہیں ورنہ وہ اس روں روں کی زندگی کو کبھی کا چھوڑ جاتا -

از بانو قدسیہ شہر بے مثال

——————–




کچھ دیر بعد میں نے دیکھا مسجد کی جانب شربتی، نیم خنک نیم گرم ہوا ماتھا ٹیکنے چلی آرہی تھی۔لگتا تھا ہواکی بیمار روح شفا چاہتی تھی۔اس نے پتہ نہیں کتنے دشت کھنگالے، کتنی وادیوں سے گزری.... گرتی پڑتی، اٹھتی بیٹھتی.... ہوامیں نہ بین تھے نہ آہیں نہ مطالبہ تھا، نہ تجسس وہ تو بس امید سے سسکارتی، عاجزی سے کھسکتی، چپکے ہوئے آنسوﺅں کی نمی سے خنک، گم سم، نہ تو گرداب صورت پریشان نہ ہی بگولے کی طرح یقین بھری، بھنور جیسی.... جھنجھلاہٹ کو دبائے ہوئے ہلکے ہلکے دائروں میں، ننھی لہروں میں مسجد کی طرف پالاگن کو بڑھ رہی تھی اسے حضوری کا شوق سنگ مر مر کے فرشوں سے اٹھنے ہی نہ دیتا تھا۔ اس جانب جہاں بلڈوزر چلتے تھے.... مٹی کو پھولوں کی طرح اٹھا کر گنبد خضریٰ کی جانب اٹھتی اور گر جاتی.... گیسری زمزمیوں کے ادھر ادھر اس گلابی ہوا کے آگے پلاسٹک کے خالی گلاس لرزنے لگے۔ ستونوں کی جدل زرد پڑ جاتی، گلابی ہوا کے ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا.... سوائے عاجزی کے، سوائے ایک سلام کے.... اسے خود معلوم نہیں تھا کہ وہ کسی بیماری سے شفا چاہتی ہے!.... کیوں ہر شام آتی ہے اور خالی ہاتھ لوٹ جاتی ہے! دوری اور مجبوری کا یہ سفر کیوں ختم ہو نہیں پاتا!​
میرا جی چاہتا تھا کہ اپنے آپ کو کسی ستون سے باندھ لوں اور جب تک حضوری کا اذان نہ ہو، اپنے آپ کو باندھے رکھوں....میں اونچے اونچے رونا چاہتا تھا، لیکن مدینے کی پیازی ہوا نے میرے کان میںہولے سے کہا.... مجھے نہیں دیکھتا.... میں کتنے قرن سے یہاں آتی رہی ہوں اور بولی نہیں.... یہاں نہیں.... یہاں نہیں.... تم خانہ کعبہ میں جاکر اللہ کے دروازے سے لپٹ کر ٹکریں مار مار کر رونا.... یہاں عاجزی سے.... دیکھنا ہاتھ جڑے رہیں آواز نہ نکلے.... من کا کیا ہے!.... اسے تو غم کا دکھلاوا چاہئے.... ادب.... حد ادب.... گلابی ہوا.... ہونٹوں میں الحفیظ.... الحفیظ.... دباتی ننگے پاؤں گھومتی رہی​

( بانوقدسیہ کے افسانے کعبہ میرے پیچھے سے اقتباس)​


——————–



مرد کی ذات ایک سمندر سے مشابہ ہے - اس میں پرانے پانی بھی رستے بستے ہیں اور نئے دریا بھی آ کر گلے ملتے ہیں -

سمندر سے پرانی وفا اور نیا پیار علیحدہ نہیں کیا جا سکتا - وہ ان دونوں کے لئے کٹ مرے گا -

لیکن عورت اس جھیل کی مانند ہے جس کا ہر چشمہ اس کے اندر سے ہی نکلتا ہے - ایسے میں جب کہ جھیل کی زندگی اور ہے -

اور سمندر اور طرح سے رہتا ہے -

ان دونوں کا ہمیشہ یکجا رہنا کس قدر مشکل ہے -

مچھلی اور ابابیل کے سنجوگ کی طرح -

از بانو قدسیہ امر بیل

——————–



" بابا جی سارے لوگ مجھے اس علاج سے مایوس کراتے ہیں ، میں کیا کروں ؟ "

" ناں ناں پت - مسلمان کو مایوس ہونے کا حکم نہیں - شیطان کا اور کیا کام ہے پت - وہ انسان کو الله کی طرف سے مایوس کراتا ہے - آدمی کا معجزے پر اعتماد ختم کراتا ہے ناں ناں پت مایوسی گناہ ہے گناہ - "

" پر بابا جی "

" پر ور کوئی نہیں پت ........... اوپر والے پر کلی ایمان رکھو - جن کا ایمان مضبوط ہوتا ہے ان کے لئے ستے خیراں - ان کے لئے معجزے ہوتے ہیں - "

یکدم انھوں نے تہ خانے میں نظر دوڑائی اور پھر حیران ہو کر بولے - اشفاق صاحب ھمارے جانی جان کہاں ہیں ؟

" خان صاحب تو آج نہیں آسکے بابا جی "

بابا جی اٹھ کھڑے ہوئے ! " ناں بیٹا ناں ، محرم کے بغیر کہیں نہیں آنا جانا - حج اور عمرے پر بھی نہیں - جہاں محرم ساتھ نہ ہو وہاں شیطان تیسرا فریق بن کر ساتھ بیٹھ جاتا ہے -
پھر خطرہ تو ہر وقت موجود ہوتا ہے - شاباش پت - واپس جاؤ - محرم کو پکڑ کر ساتھ لاؤ - نہ آسکے تو پھر سہی - شاباش پت - "

ہم آزادی پسند پر اعتماد اپنے راستے اور فیصلےخود کرنے والی عورتیں تھیں اس بات سے ہم دونوں کو ٹھیس لگی -

از بانو قدسیہ راہ رواں

——————–



ہر انسان چالیس کے لگ بھگ پہنچ کرmidlife کے (crisis) اور اس سے جنم لینی والی تبدیلیوں کا شکار ہو جاتا ہے - اس عمر کو پختگی کی عمر کہہ لیجئے - لیکن یہی عمر ہے جب عام آدمی بڑی بڑی غلطیاں کرتا ہے - اور عمل میں نا پختگی کا ثبوت دیتا ہے -

تبدیلی کو خاموشی سے قبول نہ کرنے کی وجہ سے کئی بار انسان کا (image) سوسائٹی میں بلکل برباد ہو جاتا ہے -

پے در پے شادیاں ، معاشقے ، معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں ، ماں باپ سے ہیجانی تصادم ، اولاد سے بے توازن رابطہ غرضیکہ اس عہد کی تبدیلی میں زلزلے کی سی کیفیت ہوتی ہے

آخری تبدیلی عموماً بڑھاپے کے ساتھ آتی ہے - جب نہ اشیاء سے لگاؤ رہتا ہے نہ انسانی رشتے ہی با معنی رہتے ہیں - اب اطمینان قلب صرف ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے - لیکن یہ بھی نصیب کی بات ہے -

از بانو قدسیہ راہ رواں


Post a Comment

0 Comments